Wednesday, July 3, 2013

:ماہِ رمضان اور ہم ::: (1) ::::رمضان کے فائدے(فضیلتیں) ::: We we Benefits and virtues of Ramadan

:::::::ماہِ رمضان اور ہم ::: (1) ::::رمضان کے فائدے(فضیلتیں) :::::::
::::: (1)  مغفرت کے  مواقع :::::
::::: أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا ((((( مَن  صَامَ رمضانَ  اِیماناً  و اِحتساباً  غُفِرَ  لَہُ مَا  تَقّدَمَ مِن  ذَنبِہِ ::: جِس نے اِیمان اور(بخشش کی) اُمید کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اُس کے وہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چُکا ہے )))))صحیح البُخاری/حدیث 2014،
::::: أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے ((((( الصَّلوَاتُ الخَمس و الجُمعَۃُ اِلیٰ الجُمعَۃِ(و رَمضَانُ  اِلیٰ رَمضَانُ) مُکفَّراتٌ مَا بینَھُنَّ  اِذا أجتَنَبتَ الکَبائِر::: پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک ( اور رمضان سے رمضان تک کا وقت چھوٹے گناہوں میں سے ) جو کُچھ اِن (اوقات) کے درمیان ہے اُس کا کفارہ ہے ،(بشرطیکہ)تُم کبیرہ گناہوں سے بچے رہے ))))) صحیح مُسلم /حدیث233 ،
دیکھئیے کتنا بڑا موقع ہے مغفرت کا ، کہ ایک نماز سے لے کر دوسری نماز تک جو گُناہ ہوئے ہیں وہ معاف ہو سکتے ہیں کیونکہ  آنے والی نماز اِن گناہوں کا کُفارہ ہو گی ، اِسی طرح ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور پھر رمضان سے رمضان تک جو صغیرہ یعنی چھوٹے گُناہ ہوئے ہیں وہ معاف ہو سکتے ہیں ، کیونکہ آنے والا جمعہ یا رمضان گُزر ے ہوئے وقت کے گُناہوں کا کُفارہ ہو گا ،
مگر ایک شرط ہے کہ اِس عرصہ میں کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچا جائے ۔ 
::::: أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ::: 
(((((اِذا  کانَت  أَوَّلُ  لَیلَۃٍ مِن رَمضَانِ  ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِینُ وَ مَردَۃَ الجِنِّ ، وَ غُلِّقت أَبوابُ النَّارِ ، فَلَم یُفتَحَ مِنھَا بابٌ وَ فُتِّحت أبوابُ الجَنَّۃِ ، فَلَم یُغلَقُ مِنھَا بابٌ ، وَ نَادَی مُنَادٍ ، یَا باغی الخَیرِ أقبل ،  یَا باغی الشَّرِّ أَقصِر ،  وَ لِلَّہِ عُتَقَائُ مِن النَّارِ ، وَ ذَلِکَ فِی کُلِّ لَیلَۃٍ ::: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سر کشّ جنّوں کو باندھ  دِیا جاتا ہے ، اور آگ ( یعنی جہنم ) کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر اُن میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا ( یعنی رمضان میں ) اور جنّت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، پھر اُن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور آواز دینے والا آواز دیتا ہے ( یعنی اللہ کی طرف سے کِسی فرشتے کے ذریعے آواز دی جاتی ہے ) اے خیر کے چاہنے والے آگے بڑھ ، اے  شر کے چاہنے والے باز آ ، اور اللہ ہر رات میں لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے ))))) سُنن ابن ماجہ ، حدیث ، 1642 ، اِمام الألبانی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ۔ سُنن النسائی /حدیث682 ۔
اگر ہم اِس مُقدس مہینے میں جنّت کے کُھلے دروازوں سے بھی اندر نہ جا سکیں تو کتنی بد بختی ہے اللہ کی طرف سے تو مغفرت اور  رحمت کا ہر سبب مہیا کر دیا جاتا ہے ، شیطانوں کو باندھ دِیا جاتا ہے ، پھر ہمارے اپنے نفوس کی شر انگیزی ہی رہ جاتی ہے جو ہمیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نا فرمانی پراُکساتا ہے بلکہ نافرمانی کرواتا ہے ، اے اللہ ہمیں ہمارے نفوس اور ہر شر پھیلانے والے کے شر سے محفوظ فرما اور اُن میں بنا جنہیں تو اپنے اِس با برکت مہینے کی ہر رات میں آگ سے نجات دیتا ہے ۔  
::::: (2)  دُعاؤں  کی  قبولیت :::::
::::: أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصَّلاۃُ و السَّلام فرمایا کرتے تھے  :::
 ((((( اِنَّ  لِلَّہِ تعالیٰ عُتقاء فی کُل یَومٍ  و  لَیلَۃٍ ،  لِکُلِ عَبدٍ مِنھُم دَعوۃٌ  مُستَجَابۃٌ ::: بے شک اللہ تعالیٰ ہر رات اور دِن میں ( یعنی رمضان کے دِن اور رات میں ) لوگوں کو (جہنم کی آگ سے )آزاد کرتے ہیں ، اور اِن آزاد ہونے والےبندوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک قُبول شدہ دُعا ہوتی ہے ))))) مُسند أحمد ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث2169 ۔ 
یعنی افطار کے وقت اُس کی ایک دُعا ضرور قبول ہوتی ہے ، لہذا أفطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد  اپنے اور اپنے مُسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئیے دُعا کرنا مت بُھولئیے، خاص طور پر اُن کے لیے جو ، کشمیر ، فلسطین ، أفغانستان ، سوریہ (شام) عِراق یا دُنیا کے کِسی بھی خطے میں کافروں یا مشرکوں کے ظُلم کا شکار ہو رہے ہیں اگر اُن کے لیے اور کُچھ نہیں کر سکتے تو کم  از کم اُنہیں اپنی دُعاوں سے محروم نہ کیجیے ۔ 
::::: (3) نیکیوں  کے  بڑے  بڑے  خزانے :::::
::::: أبو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ((((( کُلُّ عَملَ ابن  آدمَ  لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ  اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي ، لِلصَّائمِ  فَرحَتَانِ ، فَرحۃُ عِندَ فَطرِہِ  و فَرحَۃُ عِندَ لِقائَ  رَبہِ و لَخَلوُفُ فَمِ  الصَّائمِ  أطیَّبُ عِندَ  اللَّہِ مِن رِیحِ المِسّکِ::: آدم کی اولاد کے(نیکی کے)ہر کام پر اُسکے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں،اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ(یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے)چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کوچھوڑا،(لہذا) وہ ( یعنی روزہ ) میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا(یعنی جتنا چاہے دوں)؛؛؛روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطارکے وقت کی خوشی،اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقیناً مِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے)))))صحیح مُسلم ،حدیث۱۱۵۱ ۔ 
::::: عبداللہ ا بن عباس رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃ و السّلام نے فرمایا ::: 
((((( فَاِذا جَائَ رَمضَانُ فَاعتَمرِی فَاِنّ عُمرۃً فِیہِ تَعدِلُ  حَجَۃً  و فی روایۃ  حَجَۃً مَعِيَ::: جب رمضان آئے تو اُس  میں عُمرہ کر لینا ، رمضان میں عُمرہ حج کے برابر ہے ))))) صحیح مُسلم / حدیث1256 ، سُنن النسائی/ حدیث 2109 ۔ 
جو مُسلمان اِس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وہ رمضان میں عُمرہ کر ے تو اُسے کرنا چاہیے تا کہ وہ محمدرسول اللہ علیہ الصّلاۃ و السّلام کے فرمان کے مُطابق حج کا أجر حاصل کر سکے ، مگر یہ ضرور یاد رکھے کہ عُمرہ کے لیے نکلنے سے پہلے اُس کی ادائیگی کا طریقہ جو رسول اللہ علیہ الصّلاۃ و السّلام کی سُنّت کے مُطابق ہو وہ طریقہ سیکھے اور پھر اُس کے مُطابق عُمرہ ادا کرے ، سُنی سُنائی باتوں یا کہانیوں پر عمل کر کے کیے ہوئے کام اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوں گے ۔
الحمد للہ """ عمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """کے عنوان سے میری ایک برقی کِتاب تیار ہے ، اِن شاء اللہ اس کا مطالعہ فائدہ مند ہو گا  ۔
:::::  (4)    شب  قدر  جو  ایک  ہزار  مہینوں  سے  بہتر   ہے   :::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( شَھرُ رمضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ  القُران ::: رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جِس میں قُران اُتارا گیا))))) 
اور اِرشاد فرمایا (((((إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ O وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ O لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ O تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ O سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ::: ہم نے اُسے ( یعنی قُرآن کو ) قدر کی رات میں اُتارا O اور آپ کیا جانیں کہ قدر کی رات کیا ہے O قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے O اِس رات میں فرشتے اور رُوح (جبرئیل علیہ السلام )اپنے رب کے حُکم سے ہر کام پورا کرنے کے لیے اُترتے ہیں O وہ رات فجر تک سلامتی ہے )))))
::::: أنس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃ و السّلام نے فرمایا ::: 
((((( اَنَّ ھَذا الشَّھرَ قَد حَضرَکُم و فِیہِ لُیلُۃٌ خیرٌ مِن ألفِ شَھرٍ مَن حُرِمَھَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہُ وَ لَا یُحرَمُ  اِلَّا  کُلُّ  مَحرُومً ::: یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے ، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے ، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا ، اور قدر کی رات (کے فائدوں)سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا )))))سُنن ابن ماجہ/حدیث۱۶۴۴۔ اِمام الألبانی رحمہ ُ اللہ نے اِسے صحیح قرار دِیا ۔
ان شاء اللہ اگلا حصہ بعنوان  """ ماہ رمضان اور ہم 2 ::: روزہ ، کیوں ؟ کیا؟ اور دیگر اہم مسائل"""  ہو گا ۔
 اس پہلے مضمون کا برقی نسخہ """http://bit.ly/11WtNs0 """ پر میسر ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔