مارکسزم سے لبرل انحراف: بھائی وجاہت مسعود کے جواب میں – شاداب مرتضیٰ

shadab-murtaza-252x300

مکرمی وجاہت مسعود صاحب نے مارکسزم کے حوالے سے اپنے ایک تازہ تبصرے میں  بعض نکات اٹھائے ہیں جنہیں انہوں نے مارکسزم سے اپنے انحراف کی وجہ بتایا ہے. چونکہ ان سمیت ہر شخص کو مارکسزم سے انحراف کا حق ہے اس لیے ان کے انحرافی جوازوں کے بارے میں ہمارے اس جواب کو ان کے حقِ انحراف پر حملہ تصور نہ کیا جائے بلکہ مارکسزم کے بارے میں ان کے دعوی جات کا ایک ادنی جواب سمجھا جائے.

وجاہت صاحب کا اولین نکتہ انحراف یہ ہے کہ پرولتاریہ کی آمریت (مزدور طبقے کی حکومت) کے زریعے غیرطبقاتی سماج کے قیام کے بارے میں مارکس کی پیش گوئی تجربے سے غلط ثابت ہوئی. اور ان کے بقول جس تجربے نے اس پیش گوئی کو غلط ثابت کیا وہ یہ تھا کہ پرولتاریہ کی آمریت نے  “تمام طبقوں کو” انصاف مہیا نہیں کیا! وجاہت صاحب کی تفہیمِ مارکس ازم پر توجہ فرمائیے. ان کے مطابق مارکس کی پیشن گوئی تو یہ تھی کہ پرولتاریہ کی آمریت “غیرطبقاتی” سماج, یعنی ایسا سماج قائم کرے گی جس میں طبقے نہ ہوں لیکن وہ اس پیش گوئی کو غلط اس لیے قرار دیتے ہیں کہ پرولتاریہ کی آمریت نے “تمام طبقوں کو” انصاف فراہم نہیں کیا! گویا ان کے نزدیک طبقوں کے خاتمے سے نہیں بلکہ طبقوں کو قائم رکھنے اور تمام طبقوں کو انصاف فراہم کرنے سے “غیرطبقاتی” سماج کے بارے میں مارکس کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی!

اگر ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ بہتر ہے کہ دوست مارکسزم پر تنقید سے پہلے اسے پڑھ اور سمجھ لیں اور حوالہ بھی دے دیا کریں تو دوست خفا ہو جاتے ہیں!

پرولتاریہ کی آمریت کے بارے میں بھی وہ اسی کنفیوژن کا شکار ہیں. جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ وہ مارکسزم کے نظریات, اصطلاحات اور افکار سے خاطرخواہ مطالعاتی واقفیت نہیں رکھتے چنانچہ وہ مارکسزم میں پرولتاریہ آمریت کے مفہوم سے ناآشنا دکھائی دیتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ پرولتاریہ کی آمریت بھی دیگر اقسام کے آمریتی اقتدار سے مختلف نہیں. انہیں اس بات کا غالبا ادراک نہیں کہ پرولتاریہ کی آمریت دراصل مزدور طبقے کی معیت میں محنت کش طبقے کی حاکمیت, ان کی جمہوریت ہوتی ہے اور سرمایہ دار طبقے کے ماتحت جمہوریت دراصل سرمایہ دار طبقے کی آمریت ہوتی ہے.  یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو انسانوں کی اکثریت ہے. سرمایہ دار تو مٹھی بھر ہیں. چنانچہ محنت کش طبقے کی حکومت ہی جمہور کی,عوام کی, جمہوری حکومت ہو سکتی ہے. چونکہ سرمایہ دار طبقہ “مکالمے” سے متاثر ہو کر یا پرامن جمہوری انداز سے کبھی اپنا اقتدار اور زرائع پیداوار پر اپنی ملکیت کو سماج کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنے اقتدار کی مدافعت میں بھرپور طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتا ہے لہزا مزدور طبقے کے پاس اقتدار کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا. چنانچہ, پرولتاریہ کی آمریت کا مفہوم یہ ہے کہ محنت کش طبقہ ظالم و جابر سرمایہ دار طبقے سے اقتدار حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے بلحاظِ ضرورت طاقت استعمال کرے. اشتراکی ریاست میں محنت کے زریعے حصولِ معاش کی سب کو اجازت ہوتی ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن محنت نہ کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی. دوسروں کی محنت سے دولت جمع کرنا جرم ہوتا ہے.

دوسرے نکتہِ انحراف میں وہ فرماتے ہیں کہ مارکس نے مزدوروں کو اہمیت دی اور سرمایہ داروں کو نظر انداز کیا. مارکس کے دور میں علم پھیل رہا تھا اور اس پھیلاؤ کی وجہ سے یہ پیش بینی کرنا ممکن نہیں تھا کہ مستقبل میں پیداوار کی صورت کیا ہو گی. لہذا مارکس کو مزدوروں کی حق میں اپنے تعصب سے گریز کرتے ہوئے مستقبل کی پیداواری صورتوں کی پیش بینی کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے تھا. لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مارکسزم میں دولت اور پیداوار کے نئے زرائع کی تخلیق کو نظر انداز کیا گیا! عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر پیداوار کی نئی شکلوں, نئے زرائع کا اندازہ لگانا علم کے پھیلاؤ کے سبب ممکن ہی نہیں تھا, اور اس لیے مارکس کو پیش بینی سے گریز کرنا چاہیے تھا تو پیداوار کے نئے زرائع, نئی صورتیں تخلیق نہ کرنے پر مارکسزم پر اعتراض کیسا؟ جب ایک چیز ممکن ہی نہیں تھی تو اسے تخلیق نہ کرنے پر اعتراض کس لیے؟ کیا علم کا پھیلاؤ اب رک گیا ہے, اب علم مکمل ہو گیا ہے یا مارکس سے پہلے علم پھیلنے سے شرماتا تھا؟ اب کون سے نئے زرائع پیداوار ہیں جنہوں نے مارکس کے دور کے زرائع پیداوار کی جگہ لے لی ہے؟ کیا اب سرمایہ داری نظام سرمایہ داری نظم نہیں رہا؟ کیا کار کے پہیے بدل دینے سے وہ ہوائی جہاز بن جاتی ہے؟ اس محیر العقول کلیے سے وہ یہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ اشتراکی ریاستوں نے مارکسزم کی عقیدہ پرستانہ تقلید میں پیداوار کے نئے زرائع نہیں اپنائے اور ان کی معیشتوں کا بیڑہ غرق ہو گیا. سرمایہ دار ملکوں کی معیشتوں کے مقابلے میں وہ پسماندگی کی دلدل میں گرتی گئیں. غربت, بدحالی اور آمریت نے لوگوں کو اشتراکی ریاستوں سے بھاگ کر سرمایہ دار ریاستوں میں معاشی ترقی پانے پر مجبور کردیا. اشتراکی ریاستوں میں علم و فنون کے سوتے خشک پڑ گئے اور کوئی بھی اشتراکی ریاست آج تک سماجی و معاشی ترقی کے اشاریوں میں سربلندی حاصل نہ کر سکی. نظریاتی سطح پر بھی وجاہت صاحب کی باتیں بعید از فہم ہیں اور تاریخی حقائق بھی اشتراکی ریاستوں کے بارے میں ان کے دعووں کو رد کرتے ہیں.

شاید ہی کوئی ماہرِ معیشت ہو جو سوویت یونین کی صنعتی ترقی کو ایک عجوبے سے کم سمجھتا ہو کیونکہ سوویت یونین ایک پسماندہ ترین معاشرے سے ترقی کر کے دنیا کی دوسری سب سے بڑی صنعتی معیشت بن گیا تھا. آزادی, برابری اور مسابقت کے دعوے کرنے والے سرمایہ دار ملکوں نے سوویت یونین پر اقتصادی اور سماجی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں. آج بھی کیوبا اور شمالی کوریا اشتراکی ریاست ہونے کے سبب ان پابندیوں کا شکار ہیں. پابندیوں کے باوجود سوویت یونین نے ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور صنعت و زراعت میں خود کفالت اختیار کی. سائنسی ترقی کا یہ عالم رہا کہ پہلا خلائی جہاش اور سیٹیلائٹ سوویت یونین نے بنائی. خلاء میں سوویت یونین پہلی بار گیا اور خلاء میں پہلی عورت بھی سوویت یونین نے بھیجی. جب سوویت یونین میں کمیسٹری میں ساٹھ فیصد خواتین پی ایچ ڈی کر رہی تھیں تو امریکہ مٰیں ان کا تناسب صرف پانچ فیصد تھا. سوعیت یونین میں انیس سو بیس سے جینیات کو زراعت اور گلہ بانی میں استعمال کیا جا رہا تھا جبکہ امریکہ میں انیس سو چون تک ڈارون کا نظریہ ارتقاء پڑھانے پر پابندی عائد تھی. سوویت یونین میں انیس سو سترہ میں عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جا چکا تھا جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق اور مرد کے برابر اجرت کا حق بھی نہیں ملا تھا. فلم تھیوری کی تخلیق سوویت یونین میں مارکسسٹ سرگئی آئنسٹائن کے ہاتھوں ہوئی. سوویت فلم تھیوری کو فلم تھیوری اور سینما کا جد امجد جانا جاتا ہے. موسیقی میں سوویت موسیقار یوری وزبور, سرگئی پروکوویف اور دمتری شاستاکووچ عظیم ترین موسیقاروں میں شمار کیے جاتے ہیں. سوویت یونین کے عالمہ شہرت یافتہ ادیبوں سے کون واقف نہیں؟ افریقہ, ایشیاء, مشرقی یورپ, لاطینی امریکہ کے پسماندہ ملکوں کو تیکنیکی, سائنسی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے سوویت یونین کی جانب سے مادی و مالی امداد کا تو زکر ہی کیا. پاکستان کی اسٹیل مل بھی سوویت یونین کے تیکنیکی اور مالی تعاون سے بنائی گئی. وجاہت صاحب کے اشتراکی ریاستوں کی پسماندگی کے بارے میں اس عمومی دعوے پر اشتراکی نظریے اور تاریخ سے واقفیت رکھنے والے افراد کفِ افسوس ہی مل سکتے ہیں. آج بھی اشتراکی کیوبا تعلیم, صحت اور اوسط عمر کے اشاریوں میں دنیا میں سرفہرست ہے. ایڈز اور ہیپاٹائٹس سے اموات کی شرح کیوبا میں پوری دنیا میں سب سے کم ہے. امریکہ میں میں میڈیکل کی نہایت مہنگی تعلیم کے سبب ہر سال سینکڑوں امریکی طالبعلم مفت میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کیوبا جاتے ہیں. کیوبا میں طلاب علم بمقابلہ استاد تناسب امریکہ سے کم اور تعلیمی بجٹ کا اوسط امریکہ سے زیادہ ہے. شخصی آزادی کا عالم یہ ہے کہ کیوبا کے کای شہری پر دنیا میں کہیں جانے یی پابندی نہیں لیکن امریکہ کا کوئی بھی شہری اپنی ذاتی حیثیت سے نجی دورے پر کیوبا نہیں جا سکتا! شاید ہی کوئی یورپی سرمایہ دار ملک ہو جس نے کمیونزم کے خلاف مہم میں اپنے شہریوں پر اشتراکی ملکوں میں جانے پر پابندی عائد نہ کی ہو لیکن کبھی کسی اشتراکی ریاست نے اپنے کسی شہری پر ایسی بیہودہ اور شخصی آزادی کے قطعی منافی پابندیاں عائد نہیں کی ہیں.

تیسرے نکتہِ انحراف میں وہ معترض ہیں کہ اشتراکی ریاست میں ریاست اور حکومت کا فرق ختم ہوجاتا ہے. انتقال اقتدار نہیں ہوتا اور ریاستی اہلکار بالادست ہوجاتے ہیں. شاید وہ چاہتے ہیں کہ ریاستی اہلکار بھی پانچ سال کے بعد تبدیل ہوجائیں یا ہر نئی حکومت ہر پالیسی نئے سرے سے بنائے اور ہر بار نئے انتظامی اصول و قوانین و ضوابط متعارف کرائے تاکہ ریاستی اہلکار بالا دست نہ ہو سکیں. ایسا ہوجائے تو سول سروس کی حالتِ زار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے.  مارکسزم میں انتقال اقتدار نہ ہونے کی بات قطعی غلط اور گمراہ کن ہے. اشتراکی سیاست میں بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے, پارلیمنٹ ہوتی ہے جس میں عوام کے منتخب نمائندے ہی ہوتے ہیں جنہیں محنت کش عوام کی انجمنیں جغرافیائی, پیشہ ورانہ اور سیاسی اہلیت کی بنیاد پر منتخب کرتی ہیں اور انہیں تسلی بخش کارکردگی نہ دکھانے کے باعث کسی بھی وقت واپس بلانے کا اختیار رکھتی ہیں. محنت کش عوام کی اس جمہوریت میں لوٹے بازی کی گنجائش بھی نہیں ہوتی کہ ایک فرد منتخب ہو کر پارٹی ہی بدل لے اور منتخب کرنے والے اپنے مینڈیٹ کا منہ دیکھتے رہ جائیں. فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ان نمائندوں میں سرمایہ دار یا جاگیردار طبقے کا نمائندہ نہیں ہوتا جس طرح سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ میں مزدور, کسان یا محنت کشوں کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا. کوئی بتائے کہ اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ میں کتنے مزدور اور کسان یا ان کے نمائندے ہیں یا پچھلی حکومت میں کتنے تھے؟ اس انتقالِ اقتدار سے عوام کو کیا فائدہ ہے جس کا تقاضا وجاہت مسعود صاحب مارکسزم کی مخالفت میں کرتے ہیں؟ فرد کی آزادی کے نام پر محنت کش عوام اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان طبقاتی تضاد کو نظر انداز کرنے پر اصرارکی حقیقت صرف اتنی ہے کہ انتقالِ اقتدار میں اقتدار سرمایہ دار طبقے کی کسی ایک یا دوسری سرمایہ دار سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اسی طرح  اشتراکی سیاست میں اقتدار محنت کش طبقے اور اس کی سیاسی جماعت کے نمائندوں کے درمیان کارکردگی کی بنیاد پر منتقل ہوتا رہتا ہے. جس طرح اشتراکی ریاست میں مزدور حکومت کے نام پر ایک “ٹولہ” بقول وجاہت مسعود صاحب,  اقتدار سے چمٹا رہتا ہے اسی طرح سرمایہ دارانہ ریاست میں سرمایہ دار طبقے کا ایک یا دوسرا “ٹولہ” عوامی ووٹ اور جمہوریت کے نام پر اقتدار سے چمٹ رہتا ہے اور عوام کے استحصال سے اپنی دولت کے انبار بڑھاتا رہتا ہے.

مارکسزم سے ان کا چوتھا انحراف اس نکتے پر ہے کہ مارکسزم میں مقصد اس بات کا تعین کرتا ہے کہ مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا. گویا بھلے آپ کے پاس کوئی مقصد نہ ہو لیکن اس مقصد کے حصول کا طریقہ کار آپ کے پاس ضرور ہوگا! کیا یہ ممکن ہے کہ آپ “طنزیہ” مضمون لکھنے بیٹھ جائیں جب کہ مضمون لکھنا آپ کا مقصد ہی نہ ہو؟ مقصد ہو گا تو طریقہ کار کی نوبت آئے گی. سادہ سی بات یہ ہے کہ اچھے مقاصد کے لیے جائز طریقےاور برے مقاصد کے لیے ناجائز طریقے اختیار کیے جاتے ہیں. پناما اسکینڈل کی مثال سامنے رکھیں. سرمایہ دار طبقہ منافع اور اقتدار قائم رکھنے کے مقصد سے جسم فروشی, منشیات فروشی, جعلسازی, کرپشن, تشدد, جہالت کا فروغ کیا کیا نہیں کرتا؟ اشتراکی ریاست کبھی دولت میں اضافے کے لیے جسم فروشی, منشیات فروشی یا کرپشن کو نہیں اپناتی. تاہم وجاہت صاحب کے نزدیک درست یہ ہے کہ طریقہ کار مقصد کا تعین کرے. طریقہ کار درست نہیں تو مقصد بھی جائز نہیں. طریقہ کار کو اولیت حاصل ہے, مقصد ثانوی ہے. وہ یہ فراموش کرگئے ہیں کہ طریقہ کار کو مقصد پر فوقیت دے کر انہوں نے اس کے سوا کچھ اور نہیں کیا کہ طریقہ کار کو ہی مقصد بنا دیا ہے اور مقصد اور طریقہ کار کو یکجا کردیا ہے. ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت طریقہ کار بھی ہے اور مقصد بھی. اس کا مقصد جمہوریت کی تکمیل ہے اور اس مقصد کے حصول کا طریقہ جمہوری طرزِ سیاست ہے! سرمایہ دار طبقے کے مقاصد اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے ان کے نزدیک قابلِ قبول ہیں اور اشتراکی سیاست کے مقاصد اور طریقے ناقابلِ قبول. وہ سرمایہ داری نظام کے ناجائز مقاصد اور غلط طریقوں کو نظر انداز کرتے ہیں یا ان کی حمایت. مثلا وہ کہتے ہیں کہ منڈی کی معیشت روزگار میں توازن پیدا کرتی ہے. اشتراکی ریاست کا سب لوگوں کو روزگار کی فراہمی کا نعرہ پیداوار کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے. تمام سرمایہ دار ملکوں میں ایک جانب بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت اور دوسری جانب دولت مند افراد کی تعداد میں کمی اور دولت میں بے پناہ اضافہ آزاد منڈی کی معیشت سے وابستہ روزگار اور دولت کے اس توازن کی گزشتہ تین سو سال سے نفی کر رہا ہے. پاکستان میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ اور دوسری جانب سرمایہ دار حکمرانوں کی دولت میں اضافہ بھی اس کی نفی کررہا ہے. اگر آج بھی سماج کی اکثریت بھوک, غربت, ناخواندگی اور بدحالی کا شکار ہے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معیشت کے انسانی مساوات, برابری اور خوشحالی کے دعوے کیا ہوئے؟ فیدل کاسترو نے اسی لیے کہا تھا کہ سوشلزم کی ناکامی کی بات کرنے والے پہلے یہ بتائیں کہ سرمایہ داری کہاں کامیاب ہے؟

وجاہت صاحب مارکسزم کے انحراف میں سرمایہ دارانہ نظام کو ہر لحاظ سے بہتر, جائز اور جمہوری قرار دینے کے بعد یہ تشویش بھی ظاہر کرتے ہیں کہ آزاد منڈی کی معیشت اور جمہوریت میں پچھڑے ہوئے غربت زدہ لوگوں کا تحفظ کیسے کیا جائے! گویا وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ کھلی منڈی کی معیشت سے ان کے کلیے کے مطابق روزگار میں پیدا ہونے والا توازن اور پیداوار کی ترقی حقیقت میں موجود ہی نہیں ورنہ سماج کی کثیر اکثریت کی غربت اور فرد کی آزادی, علمی اجارہ داری کے بارے میں وہ تشویش زدہ نہیں بلکہ مطمئن ہوتے! ہم اس تجربے سے پہلی بار نہیں گزرے کہ تمام تر قوتِ استدلال سے مارکسزم اور اشتراکیت کو غلط اور سرمایہ داری نظام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے لبرل حضرات سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والی خوفناک تباہی کا سرسری زکر کر کے اپنے بیانیے کو متوازن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ایک نئے راستے کا تقاضا کرتے ہیں جس سے سرمایہ داری نظام بھی باقی رہے لیکن اس کی خرابیاں ختم ہو جائیں. ان کی خواہش ایسی ہی ہے جیسے مرض کو ہی علاج کے لیے تجویز کیا جائے.

 سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے معاشی و سیاسی نظام کے جن خطرناک نتائج کی جانب وجاہت صاحب اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن مارکس نے دو سو سال پہلے اس نظام اور اس کے پیداکردہ حآلات کا خوردبینی تجزیہ کر کے ان کی سائنسی توجیہ کر دی تھی. محنت کی سماجی نوعیت اور پیداوار کی ذاتی ملکیت کے اس تضاد سے پیدا ہونے والے بحرانی سماجی حالات اور سرمایہ داری نظام میں آنے والا ہر اوتصادی بحران مارکا کے تجزیے کی درستگی کو پھر سے تازہ کردیتا ہے. مارکس کے سیاسی افکار یا فلسفیانہ نظریات سے, اس کے کسی ایک یا دوسرے خیال سے بہت سے لوگ اختلاف رکھتے ہیں. لیکن معیشت کے میدان میں مارکس کی دریافتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں اس کے تجزیے اور اندازوں کو شاید ہی کوئی سنجیدہ اور مارکسی معاشیات سے واقف شخص غلط قرار دینے کی جسارت کرے گا

Source:

http://www.humsub.com.pk/15590/shadab-murtaza-4/

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.