Hadiths on Hadith Writing
احادیث لکھنا منع پر احادیث
علم کو تحریر میں لانے کے فوائد کون نہیں جانتا ؟ قرآن کو خلفا راشدین نے لکھ کر محفوظ کیا ۔ لیکن احادیث کو نہیں لکھوایا ، اس کی وجہ علم دشمنی نہیں، نہ ہی ان کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے پرخاش تھی ۔ وہ تو رسول اللہ ﷺ کی سنت اور احکام پر سختی سے عمل کرنے والے تھے جن کو رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین نے جنت کی بشارت دی اور اپنے بعد اختلافات کے فیصلے کرنے اک اختیار دیا تھا ۔
احادیث کی کتابت نہ کرنے کی واحد وجہ جو قرآن و سنت سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قرآن کے مقابل کسی اور کتاب کی گنجائیش نہیں ہے ، یہود نصاری نے یہی غلطی کی اور گمراہ ہو گئے۔
جو لوگ خلفا راشدین کی عظمت کے دل سے قائل نہیں، وہ ان پر اعتماد کیوں نہیں کرتے جن پر رسول اللہ ﷺ کو مکمل اعتماد تھا- کیا ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کی فہم و فراست پر شک ہے؟ جو لوگ خود کو خلفاء راشدین سے بہتر عالم اور عقل مند سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں کسی اور دین کے پیروکار ہو سکتے ہیں ۔ مسلمان مائینس فور (Minus Four) پر یقین نہیں رکھ سکتا۔
کہتے ہیں کہ صحابہ اکرام میں آحادیث لکھنے پر اختلاف تھا ، کچھ اسے مکروہ سمجھتے تھے کیوں؟ ۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے احادیث لکھنے کی عام اجازت دے دی تھی تو پھر اپنی مرضی سے کسی عمل کو مکروہ یا حرام و حلال تو نہیں قرار دیا جاسکتا وہ بھی دو صدی تک؟
احادیث کی کتب میں احادیث کی کتابت کی ممانعت یا اجازت جوکہ ایک متنازعہ موضوع ہے اس پرعلحیدہ کتاب یا باب ہونا چاہیے تھ- مگر باب تو دور کی بات صرف گنتی کی چند احادیث بیان کر کہ احادیث لکھنے کی مشروط انفرادی احادیث سے اس پابندی کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش نظر آتی ہے - حضرت عمر (رضی الله) اور خلفاء راشدین ، جنہوں نے اس پابندی کو نافذ کیا ان کا سرسری تذکرہ بھی ملنا مشکل ہے - تحقیق کے دوران اسلامی تاریخ اور احدیث کی تاریخ پر مغرب میں مسلمان سکالرز کی عمدہ [1]کتب ملتی ہیں جو عہد قدیم سے اب تک کے مسلمان علماء اور تاریخ دانوں نے لکھیں- مستشرقین (Orientlists ) اپنے تعصبات کےباوجود کچھ حقائق سامنے لانتے ہیں - مسلمان علماء کا رویہ معذرت خوانہ ہے جو صرف علماء کے اخذ کردہ مسلکی ، فرقہ وارانہ دائرہ سے باہر نہیں نکتلے - یہ معلومات کا دور ہے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا نہ ہی اسلام جیسے حقیقت پسند دین میں اس کی ضرورت یا گنجائش ہے - دین اسلام قرآن و سنت پر قائم ہے اور خلفاء راشدین کے اہم ترین کردار کے تو اسلام دشمن بھی قائل ہیں - ان کے فیصلوں کو چھپا نا اسلام کی خدمت نہیں اسلام دشمنی ہے -
ایک کتاب [2]"تقييد العلم للخطيب البغدادي" المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)، الناشر: إحياء السنة النبوية - بيروت، عدد الأجزاء: 1، [ترقيم الكتاب موافق للمطبوع، وهو ضمن خدمة التخر] ملی جو کہ اس موضوع پر احادیث کا مجموعہ ہے جس میں احادیث لکھنے پر پابندی اور اجازت دونوں اطراف کو کوور( cover) کرنے کی کوشش کی گیی ہے - یہ کتاب عربی میں ہے ، اس میں سے کچھ اہم احادیث کا انتخاب یہاں پیش ہے ، ترجمہ مشین کی مدد سے میعاری نہیں مگر متن سمجھ سکتے ہیں اگر عربی پر بھی نظر ڈالیں - احادیث لکھنے کی اجازت پر احادیث کی کتب اور دوسری کتب ، رسائل ، مضامین کی بھر مار ہے اس لیے یھاں احادیث لکھنے پر پابندی کے متعلق احادیث کو ترجیح دی ہے- کتاب کا انڈکس (ترجمہ ) [3]مہیا ہے جس کو وزٹ کر سکتے ہیں-
کتاب کا اردو [4]ترجمہ اس لنک پر ہے ، کسی بھی زبان میں ترجمہ کا آپشن بھی مہیا ہے -
Website [5]English Translation ,....[......]
~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~
اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ
جب امت اختلاف , انتشار اور بدعات کا شکار ہو، ایسے موقع پر صحیح راہ یہ ہو گی کہ قرآن, نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے و سنت پر بغیرتامل لازم عمل کیا جایے ہے، کیونکہ اختلافات وبدعات کی صورت میں حق کو پہنچاننے کی کسوٹی اور معیار یہی ہیں۔
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”
(سنن ابی داود 4607 ، الألباني: صحيح، جامع الترمذي: 2676 ، سنن ابن ماجه: 42، 43 ، مشكوة المصابيح: 165)
ابوہریرہ سے ایک روایت کےمطابق نبی ﷺ نے احادیث لکھنے والوں کو کہا : کیا تم کو کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتابیں چاہئے؟ پہلی امتیں اس لیے گمراہ ہوئیں کیونکہ وہ کتاب الله تعالی کے ساتھ دوسری کتابوں سے لکھتے تھے
["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]
حضرت ابوہریرہ ؓ سےمروی نبی ﷺ نے احادیث لکھنے والوں کو کہا : کتاب اللہ کی موجودگی میں ایک اور کتاب؟ کتاب اللہ کو خالص رکھو چناچہ ہم نے اس وقت تک جتنا لکھا تھا، اس تمام کو ایک ٹیلے پر جمع کرکے اسے آگ لگادی- [مسند احمد، حدیث: 10670]
تمام خلفاء راشدین کی سنت میں قرآن کے علاوہ احا دیث کی کتابت شامل نہیں،حضرت ابو بکرصدیق (رضی الله) نے احادیث کوضایع کردیا تھا - حضرت عمر (رضی الله ) نے غورو خوض کے بعد احادیث نہ لکھنے کا حکم جاری کیا جس پر خلفاء راشدین نے بھی سختی سے عمل کیا ، یہ قرآن (7:185، 77:50، 45:6،39:23) اور رسولﷺ کے ابدی حکم کے عین مطابق تھا، جومشروط اجازت کی وجہ سے پیدا شدہ کسی بھی شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے کافی تھا- صرف خلفاء راشدین کو رسول ﷺ نے اختلافات میں فیصلہ کا اختیار دیا تھا- اس سنت پر دوسری، تیسری صدی حجرہ تک عمل ہوا جس کے بعد تاویلات کے زور پر نافرمانی اور بدعت کبیرہ کا آغاز ہوا -
ان لوگوں نے اپنی چرب زبانی اور تاویلات کے زور پر دین اسلام پر قبضہ حاصل کر لیا - احادیث کی کتب میں درست روایات کے ساتھ ساتھ اپنی من پسند روایات کو بھی شامل کیا کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز پر بھی انہی کو اجارہ داری حاصل ہے- فرقہ واریت کا بازار گرم ہے مخالفین کی احادیث کو ضعیف , موضوع بنا دیتے ہیں- آج بھی احادیث کے درجات تبدیل کرتے رهتے ہیں احادیث کی کتب لکھنے والوں نے "کتابت احادیث" پرپابندی کی قران ، سنت رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین ، سنت خلفاء راشدین کا بایکاٹ کیا کہ لوگ حقائق سے لاعلم رہیں- مگر مسلمان تاریخ دانوں نے اپنی کتب میں سب کچھ لکھ ڈالا جو صرف علم حق کے متلاشی جدوجہد سے تلاش کر سکتے ہیں-
مزید معلومات اس سائٹ پر >>>>
https://Quran1Book.blogspot.com
~~~~~~~~~~~~~~
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ , حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ
ترجمہ:
ہمیں ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ السراج ، بِنَيْسَابُورَ نے ، ہمیں ابو عباس محمد بن یعقوب الْأَصَمُّ نے ، عباس الدوری کو بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن عمرو نے بتایا ، کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے والد سے ، عطا بن یاسر سے ، ابوہریرہ کے اختیار پر، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
کیا آپ کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ
["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]
پہلی امتیں، یہود نے تورات کے علاوہ تلمود اور نصاری نے انجیل کے ساتھ ٢٣ کتب لکھ کر گمراہ ہو گیے-
نوٹ : یہ اہم ترین حدیث ، احادیث کی مشہور کتب میں بھی موجود ہے مگر اس کا اہم ترین جزو [تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں" ۔] ان میں شامل نہیں ([مسند احمد، حدیث: 10670) - یہ اصل وجہ ہے احادیث کی کتابت نہ کرنے کی جو مستقل ، دائمی ہے - اس لیے کچھ افراد کو احادیث لکھنے کی مشروط اجازت یادداشت میں کمزوری، زکات ، دیت ،خاص حساب کتاب ، سرکاری خط و کتابت ، معاہدات وغیرہ مستثنیات ہیں جو اس حکم کو منسوخ نہیں کرتے الا کہ رسول اللہ صلعم منسوخی کا حکم جاری فرماتے - یہ سب شکوک و شبھات ختم ہوں جانا چاہیے تھے جب خلفاء راشدین نے اسی حکم/ سنت رسول اللہ صلعم کو جاری رکھا جس پر دوسری تیسری صدی تک عمل درآمد ہوتا رہا - تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہ صلعم اور خلفاء راشدین کی حکم عدولی کا خمیازہ نفاق ، فرقہ واریت ، قرآن کو نذر انداز کرکہ بھگت رہے ہیں - اصلاح کی فوری ضرورت ہے -
http://lib.efatwa.ir/43553/1/33
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث نہ لکھنے کا حکم
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 7510)
ترجمہ:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت لکھو میرا کلام (حدیث) اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے مگر قرآن کو نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
(صحیح مسلم، کتاب: زہد و تقوی کا بیان، باب: حدیث مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے اور علم کے لکھنے کے حکم کے بیان میں ، حدیث نمبر: 7510)[6]
رسول اللہ سے حدیث لکھنے کی ممانعت پر احادیث کی مشہور کتب سے مزید احدیث ...[....]
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْعَلَّافُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:
«إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا وَاتَّبَعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ 》》
《 بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی اور اس کی پیروی کی ، اور تورات چھوڑ دی》
وَأَخْبَرَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْفَزَارِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا جَدِّي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ أَنَّ عِنْدَ، نَاسٍ كِتَابًا , فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ , فَلَمَّا أَتَوْهُ بِهِ مَحَاهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ وَأَسَاقِفَتِهِمْ وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ , أَوْ قَالَ: تَرَكُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ حَتَّى دَرَسَا وَذَهَبَ مَا فِيهِمَا مِنَ الْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ
اس نے مجھ سے ابوالفضل فاضری کو بتایا ، ہمیں عبدالرحمٰن بن عمر نے بتایا ، ہمیں محمد بن احمد بن یعقوب نے بتایا ، ہمارے دادا سے کہا ، ہمیں بن ہارون کے بارے میں بتایا ، ہمیں عام بن بن ہشب نے تیمی کے بارے میں بتایا ، کہا:
ابن مسعود وہ تھا جب ، لوگوں نے کتاب لکھا ، ، اور جب اس نے اسے مہا کہا ، پھر کہا ، لیکن آپ کے سامنے اہل کتاب ہلاکت میں پڑ گئے ، انہوں نے علماء اور ان کے بشپوں (bishops ) کی پیروی کی اور اپنے رب کی کتاب چھوڑ دی ،
یا اس نے کہا: تورات اور انجیل کا سبق چھوڑ دیا ہے اور یہاں تک کہ احکام و فرائیض بھی چھوڑ دئیے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، هُوَ الرَّمَادِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ، فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارُوا عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَهَا فَطَفِقَ عُمَرُ يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِيهَا شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا»( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
ہمیں علی بن محمد بن عبد اللہ معدل ، ہمیں اسماعیل بن محمد الصفر نے بتایا ، ہمیں احمد بن منصور نے بتایا ، رمادی ہے ، ہمیں عبدالرزاق نے بتایا ، ہم نے معمر کو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ، عروہ ابن الزبیر سے کہا کہ:
"عمر بن الخطاب سنن لکھنا چاہتا تھا ، اصحاب رسول اللہ ﷺ سےمشورہ کیا تو انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے لکھیں، لیکن عمر نے اس کا انتظار کیا کہ وہ ایک مہینہ اللہ سے استخارہ کریں، پھر ایک دن آیا ،عَزَمَ اللَّهُ سے کہا: "میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دییا، اللہ کی قسم میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ (لباس) نہیں پہناوں گا"
( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ , أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ , حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَرَادَ عُمَرُ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ تَعَالَى شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ فَقَالَ: «ذَكَرْتُ قَوْمًا كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
ہمیں بتایا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ سے عثمان بن احمد نے بتایا ، ہمیں حنبل بن اسحاق نے بتایا ، ہمیں قصبہ بن عقبہ سے بتایا ، سفیان ، معمر نے الزہری، عروہ نے کہا:
عمر سنن لکھنا چاہتا تھا اس نے اللہ سے ایک مہینہ استخارہ کیا ، پھر ایک صبح اس کا تعین ہوا ، اس نے کہا: "ان اقوام کو یاد رکھو جنہوں نے کتاب لکھی تو انہوں نے كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ کو ترک کردیا ۔"
أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَلَفٍ الرَّزَّازُ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْبُرُوجِرْدِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ وَهْبٍ الْحَافِظُ , فِي سَنَةِ ثَمَانِ وَثَلَاثِمِائَةٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ ,
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ , عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ "أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ شَهْرًا فَأَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , عَزَّ وَجَلَّ , هَكَذَا قَالَ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بِخِلَافِ رِوَايَةِ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَوَافَقَ رِوَايَةَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ
الیکٹرانک ترجمہ ؛
مجھے ابوالفتح عبد الملک بن عمر بن خلف رزاز خبر دی ، ہمیں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْبُرُوجِرْدِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ وَهْبٍ الْحَافِظُ , فِي سَنَةِ ثَمَانِ وَثَلَاثِمِائَةٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ سے کہا:
ہمیں بتایا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ , عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ,
ععُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نے کہا کہ: میں نے سنت لکھنے کا ارادہ کیا ایک مہینہ اللہ سے استتخارہ کیا ، پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دییا،
یہ قول، روایت ہے عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ سے , عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عمر ثوری کے متعلق قبیصہ کی روایت سے مختلف ہیں ، اور اس حدیث کو شعیب ابن ابی حمزہ نے روایت کیا ہے الزُّهْرِيِّ , اور وہ عبد الرزاق کے بیان سے اتفاق کرتا تھا عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/49
أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَشَارَ فِيهَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارَ عَامَّتُهُمْ بِذَلِكَ عَلَيْهِ , فَمَكَثَ عُمَرُ شَهْرًا يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِي ذَلِكَ شَاكًا فِيهِ , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا قَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ ذَكَرْتُ لَكُمْ مِنْ كِتَابِ السُّنَنِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ , ثُمَّ تَذَكَّرْتُ فَإِذَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ قَدْ كَتَبُوا مَعَ كِتَابِ اللَّهِ كِتَابًا أَلْبَسُوا عَلَيْهِ , وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا , فَتَرَكَ عُمَرُ كِتَابَ السُّنَّةِ
عمر بن الخطاب نے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا ارادہ کیا اور صحابہ سے مشورہ کیا ،تو انہوں نے اس کے خلاف مشورہ دیا پھر عمر نے ایک ماہ اللہ سے استخارہ کے بعد ، انہوں نے کہا: میں نے سنن کی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ، اور پھر مجھے پہلی اقوام یاد آگیئں ، اہل کتاب نے کتاب لکھی کے لوگوں نے خدا کی کتاب کے ساتھ ایک کتاب لکھی اور کتاب اللہ کو چھوڑ دیا ہے اور اسے خدا کی کتاب چھوڑ دی، اللہ کی قسم میں کبھی بھی اللہ کی کتاب کو کوئی لبادہ (لباس) نہیں پہناتا ، اس لئے عمر نے سنت کی کتابت کرنا چھوڑ دیا ۔
أَمَّا حَدِيثُ شُعَيْبٍ فَأَخْبَرَنَاهُ أَبُو سَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْفَضْلِ الصَّيْرَفِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْجَكَّانِيُّ الْخُزَاعِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ , أَخْبَرَنِي شُعَيْبٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَشَارَ فِيهَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَامَّتُهُمْ بِذَلِكَ فَلَبِثَ عُمَرُ شَهْرًا , يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِي ذَلِكَ , شَاكًّا فِيهِ , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي قَدْ كُنْتُ ذَكَرْتُ لَكُمْ مِنْ كِتَابِ السُّنَنِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ , ثُمَّ تَذَكَّرْتُ فَإِذَا أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ قَدْ كَتَبُوا مَعَ كِتَابِ اللَّهِ كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا» فَتَرَكَ كِتَابَ السُّنَنِ
عمر ابن الخطاب نے سنن لکھنے کا ارادہ کیا اصحاب رسول اللہ ﷺ سے مشورہ کیا ، ایک مہینہ استخارہ کیا پھر ایک دن ان کا عزم ہوا ، انہوں نے کہا: " میں نے آپ سے ذکر کیا کہ سنن کی کتاب لکھوں، اور پھر مجھے آپ سے قبل اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کے ساتھ اور کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب چھوڑ دی ، تو اللہ کی قسم میں اللہ کی کتاب کو کبھی بھی کوئی نہیں پہنتا »اس نے سنن کی کتاب کو چھوڑ دیا
http://lib.efatwa.ir/43553/1/50
ابو سعید سے عطاء بن یاسر سے ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، مجھے حدیث لکھنے کی اجازت نہیں دی اور بخاری نے کہا: انہوں نے حدیث لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/32
زید ابن ثابت کے مطابق ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث لکھنے سے منع کیا تھا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/35
انہوں نے ابو ہریرہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ حفظ کرنے والا میں تھا ، عبداللہ بن عمرو کے علاوہ ، میں اپنے دل سے باخبر ہوں اور اس کے دل سے واقف ہوں اور وہ لکھتا تھا ، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی ، اس کو رسول اللہ ﷺ سے اجازت مل گئ تھی۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/82/
بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُّ يَعْنِي ابْنَ الرَّيَّانِ , حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: " أَلَا نَكْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنْكَ , قَالَ: تُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوهَا مَصَاحِفَ؟ فَإِنَّ نَبِيَّكُمْ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , كَانَ يُحَدِّثُنَا فَاحْفَظُوا مِنَّا , كَمَا حَفِظْنَا " وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عَلِيٍّ
ہمیں ابو ورونیس ابو سعید کے بارے میں بتائیں: میں نے اس سے کہا: "جو کچھ ہم آپ سے سنتے ہیں اسے لکھ دیں ، آپ نے فرمایا: تم اسے قرآن پاک کی نسخے بنانا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے ہیں ، ہمیں رکھنا ، جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں"
http://lib.efatwa.ir/43553/1/36
حَدَّثَنَا كَهْمَسُ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَكْتِبْنَا , قَالَ: «لَنْ أُكْتِبَكُمْ , وَلَكِنْ خُذُوا عَنَّا كَمَا كُنَّا نَأْخُذُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ»
میں آپ کو نہیں لکھوں کر دوں گا ، لیکن ہم سے جس طرح ہم رسول خدا سے لے جایا کرتے تھے اسی طرح ہم سے لےجائیں ، خدا کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
شعبان نے ہم سے سعید الجریری ، ابو نصرکے اتباع سے بیان کیا ، جس نے کہا: میں نے اپنے والد سعید سے کہا: کیا تم مجھے احادیث لکھاتے ہو ، اور اس نے کہا: سنو جیسا کہ ہم نے سنا ہے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
ہمیں ہیبان بن موسی نے بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے ، جریرہ کے لئے ، نے ہمیں ابو ورنس نے کہا: میں نے ابوسعید سے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث بیان کی ، اسے کہا کہ اسے لکھ دے ، تو اس نے کہا: میں اسے لکھ کر قرآن نہیں بناؤں گا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/38
احَدَّثَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثٍ فَقَالَ ابْنُهُ: لَيْسَ كَمَا حُدِّثْتُ , قَالَ: وَمَا عِلْمُكَ؟ قَالَ: كَتَبْتُهُ , قَالَ: فَهَلُمَّ الصَّحِيفَةَ , فَجَاءَ بِهَا , فَمَحَاهَا
بن مسعود کی ایک حدیث ہے ، تو اس کے بیٹے نے کہا: ایسا نہیں ہے جیسا کہ تھا ، اس نے کہا: تمہارا کیا علم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ لکھا ، انہوں نے کہا: تو وہ صحیفہ کو لے آیا ، اور اس نے اسے مٹا دیا
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى يُحَدِّثُنَا بِأَحَادِيثَ , فَنَقُومُ أَنَا وَمَوْلَى لِي فَنَكْتُبُهَا , فَحَدَّثَنَا يَوْمًا بِأَحَادِيثَ فَقُمْنَا لِنَكْتُبَهَا , فَظَنَّ أَنَّا نَكْتُبُهَا , فَقَالَ: أَتَكْتُبْنَانِ مَا سَمِعْتُمَا مِنِّي؟ قَالَا: نَعَمْ , قَالَ: فَجِيئَانِي بِهِ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَهُ , وَقَالَ: احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا
ہمیں حامد بن ہلال بتائیں ، ابو بردہ نے کہا: ابو موسی ہمیں حدیث دیتے ہیں ، میں وینکٹبھا ، وڈٹنا کے انٹرویو کے دنوں سے اپنی نوکری سناتا ہوں ، اس لئے ہم لکھتے ہیں ، میں کلین لکھتے ہیں ، انہوں نے کہا: اکیٹ ببان مجھے سامتما کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: پھر وہ میرے پاس لے آیا ، تو اس نے پانی طلب کیا اور اس نے اسے دھو لیا ، اور کہا: حفظ کرو جس طرح ہم نے حفظ کیا ہے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
طلحہ بن یحییٰ نے ہمیں ابوبردہ سے بتایا ، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے کتاب لکھتا تھا ، اس لئے اس نے پانی کا ایک برتن بلایا اور اس نے اسے دھویا۔ الفاظ احمد کی حدیث ہے
http://lib.efatwa.ir/43553/1/40
ہمیں ابو عبید اللہ سید بن عبد الرحمٰن المکزومی نے بتایا ، ہمیں سفیان ، ابراہیم بن نرم ، طاووس سے کہا ، انہوں نے کہا: اگر کوئی شخص ابن عباس کو اس کے بارے میں پوچھتا ہے ، تو وہ اس شخص سے کہتا ہے -: اپنے دوست سے کہو کہ ایسا ہے اور ایسا ہے؟ اس لئے کہ ہم صرف خطوط اور قرآن مجید صحیفہ میں لکھتے ہیں ، ابو خضمہ کا لفظ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/42
ابن جریج نے ہم سے کہا: الحسن ابن مسلم نے مجھ سے ، سعید بن جبیر کے اختیار پر ، کہا کہ ابن عباس کتاب سے منع کرتے تھے۔
عبد اللہ بن محمد نے ہم سے روایت کیا ابو ابوتہمہ نے اسے بیان کیا۔ اس نے کہا: نہیں ، میں نے کہا: مجھے ایک ایسی کتاب ملی ہے جو میں پڑھ سکتا ہوں؟ اس نے کہا نہیں
عبدالرحمٰن بن عثمان ، دمشق کو لکھا ، اور ہم سے عبدالعزیز ابن ابی طاہر کو ، ان کے ساتھ ، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ابوالحسن عبدالرحمٰن بن عبد اللہ بجالی نے ، ہمیں ابو زار عبدالرحمٰن بن عمرو نے بتایا ، مجھے ابوذر نے بتایا ، مجھے منھیر بن نافی نے کہا ، میں نے ادریس ابن ابی کو سنا ادریس کہتے ہیں: میرے والد نے مجھ سے کہا: کیا تم مجھ سے سنتے ہو وہ لکھتے ہو؟ تو میں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: مجھے دے دو ، اس نے کہا: تو میں اسے لے کر آیا ، اور اس نے اسے توڑ دیا۔
ابو زار نے کہا ، مجھے عبدالرحمٰن بن ابراہیم نے بتایا ، ہمیں ولید بن مسلم ، عبد اللہ بن علاء بن زپر ، قاسم بن محمد نے بتایا کہ «« حدیث لکھنا مکروہ »
(كَرِهَ كِتَابَةَ الْحَدِيثِ)
http://lib.efatwa.ir/43553/1/46
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِجَرِيرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ , كَانَ مَنْصُورٌ , يَكْرَهُ كِتَابَ الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ , مَنْصُورٌ , وَمُغِيرَةُ , وَالْأَعْمَشُ , «كَانُوا يَكْرَهُوَنَ كِتَابةَ الْحَدِيثِ»
ہمیں بتائیں ، عبدالمالک نے ، ہم سے عمر نے ، ہم سے علی نے ، ہمیں اسحاق بن اسماعیل تالقانی نے کہا: میں نے جریر ابن عبد الحمید سے مراد کہا ، کیا منصور تھا ، کتابی حدیث سے کراہت کرتا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ، منصور ، مغیرہ اور العاش ، "انہیں حدیث لکھنے سے کراہت تھی۔"
http://lib.efatwa.ir/43553/1/48
أَخْبَرَنَا ابْنُ الْفَتْحِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «كَانُوا §يَكْرَهُوَنَ الْكِتَابَ»
بیٹا فتح ہمیں بتائیں ، ہم سے عمر بن ابراہیم ، ہمیں عبد اللہ بن محمد نے ، ہمیں ابو الخدمہ سے ، عبدالرحمٰن نے ، سفیان ، منصور ، ابراہیم کے بارے میں ، کہا:
ا"نہیں کتاب سے کراہت تھی"
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ النَّاقِدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيدَانَ، بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بَعَثَ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ أَنْ يَكْتُبَ، لَهُ حَدِيثًا , قَالَ: فَجَاءَ أَبُو الْعَالِيَةِ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ , فَقَالَ: §لَوْ كُنْتُ أَكْتُبُ لِأَحَدٍ لَكَتَبْتُهُ لَكَ , فَحَدَّثَهُ حَتَّى حَفِظَهُ
اگر میں کسی کے لئے لکھ رہا ہوتا تو میں آپ کے لئے لکھتا اور اس نے اسے اپ ڈیٹ کردیا یہاں تک کہ اس نے اسے حفط کرلیا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/47
أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي دَارِهِ , فَانْطَلَقَ النَّاسُ , فَذَهَبْتُ مَعَهُمْ , فَإِذَا تِلْكَ الصَّحِيفَةُ بِيَدِهِ وَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ , وَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكُتُبِ بِاتِّبَاعِهِمُ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي أُحَرِّجُ عَلَى رَجُلٍ يَعْلَمُ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا دَلَّنِي عَلَيْهِ فَوَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ لَوْ أَعْلَمُ مِنْهَا صَحِيفَةً بِدَيْرِ هِنْدَ لَأَتَيْتُهَا وَلَوْ مَشْيًا عَلَى رِجْلَيَّ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ تِلْكَ الصَّحِيفَةَ
عبد اللہ بن مسعود کے گھر لوگ گئے ، میں ان کے ساتھ گیا ، اس کے ہاتھ میں کاغذ تھا اور انہون نے کہا: اس صحییفہ میں فتنہ، گمراہی اوربدعت ہے ( فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ ) تم سے قبل اہل کتاب ہلاک (برباد، گمراہ) ہوئے کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ چھوڑ کر دوسری کتب کی اتباع کی ۔ یا اللہ ، میں شرمندہ ہوں ان کو کچھ نہیں جانتا لیکن مجھے دکھاؤ اگر وہ مجھے جانتا ہے، اگر ہند کے مندر میں بھی صحیفہ ہو تو میں جا کر لاتا پھر اس نے پانی کا منگوایا اور تو اس نے وہ صحیفہ دھودیا
http://lib.efatwa.ir/43553/1/55
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْقَسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ:
سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِالْكُوفَةِ , فَجَاءَ رَجُلٌ وَمَعَهُ كِتَابٌ , فَقُلْنَا مَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: كِتَابُ دَانْيَالَ , فَلَوْلَا أَنَّ النَّاسَ تَحَاجَزُوا عَنْهُ لَقُتِلَ , وَقَالُوا: أَكِتَابٌ سِوَى الْقُرْآنِ؟
میں نے عمرو بن میمون الاودی کو سنا ، جس نے کہا: ہم بیٹھے تھے کوفہ میں ، پھر ایک شخص کتاب لے کر آیا ، تو اس نے کہا یہ کون سی کتاب ہے؟ اسں نے کہا: دانیال کی کتاب ، اگر لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی ، تو وہ مارا جائے گا اور کہا: قرآن کے سوا کچھ نہیں لکھا؟
http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ الْحَدِيثَ وَيَكْتُبُهُ فَإِذَا حِفْظَهُ دَعَا بِمِقْرَاضٍ فَقَرَضَهُ
أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ « لَمْ يَرَ بَأْسًا إِذَا سَمِعَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ، أَنْ يَكْتُبَهُ، فَإِذَا حَفِظَهُ مَحَاهُ»
ہمیں ابن روزقوہ بتادیں ، ہمیں عثمان بن احمد نے بتایا ، کہا: ہمیں حنبل بن اسحاق نے کہا: ہمیں ہشام بن خلف سے کہو ، ہمیں حماد بن زید ، یحییٰ بن عتیق ، محمد ، نے بتایا کہ ا《 جب اسے نئے آدمی نے لکھنے کے لئے سنا تو اسے بدقسمتی نظر نہیں آئی اور جب اس نے اسے محفوظ کیا تو اس نے اسے مٹا دیا 》
http://lib.efatwa.ir/43553/1/59
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان میں کہ عبد اللہ بن عمرو رسول خدا سے حدیث لکھا کرتے تھے ، خدا کی دعائیں ان پر پڑھیں۔
جج ابوبکر احمد بن حسن الحراشی نے بتایا ، ہمیں ابو عباس محمد نے بتایا یعقوب کے بہرے نے ، ہمیں ابو زارحہ دمشق بتایا ، احمد بن خالد سے مراد الوہبہ نے ، ہمیں محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب نے ، تعزیرات بن سے حکیم مجاہد کو بتایا۔ ، انہوں نے ابو ہریرہ کو سنا ، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو حفظ کرنے والا کیا تھا ، اللہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ ، میں اپنے دل سے واقف ہوں اور اس کے دل سے واقف ہوں ، اور وہ لکھتے ہیں ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی ، اسے مجاز قرار دیا۔
ہمیں علی بن محمد بن عبد اللہ نے ترمیم کی ، ہمیں اسماعیل بن محمد الصفر نے بتایا ، بتایا احمد بن منصور رمادی ہے ، ہمیں عبدالرزاق نے بتایا ، ہم سے معمر نے ، ہمام بن الارم نے سنا ، انہوں نے ابو ہریرہ کو سنا ، وہ کہتے ہیں: صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اللہ تعالٰی رحمت کرے۔ اس کی بنا پر ، مجھ سے زیادہ حدیثیں ، سوائے عبد اللہ ابن عمرو کے ، کیونکہ اس نے لکھا تھا اور نہیں لکھا تھا
ہمیں احمد بن محمد بن غالب نے بتایا ، کہا: ہم نے ابوبکر اسماعیلی پر پڑھا ، حدثم احمد بن ہمدان ال عسکری نے ، ہم نے علی بن شہری کو ، اور ابو علی سے ، ہمیں عمرو نقاد نے بتایا ، جوزف کے بیٹے ہارون اور عبداللہ بن صالح سے کہا ، انہوں نے کہا: ہمیں ابو عمر کا بیٹا بتاؤ انہوں نے کہا: ہمیں اپنے بھائی ، عطیہ بن الارم کے بارے میں ، سفیان ، عمرو بن دینار سے کہو ، انہوں نے کہا: میں نے ابو ہریرہrah کو کہتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حال کیا ، حال ہی میں وہ مجھ سے زیادہ ہے ، لیکن عبد اللہ بن عمرو کیا تھا؟ ابن صالح نے کہا ، ابن ابی عمر نے کہا ، "عمرو نے ہمیں بتایا ،" وہ لکھتے تھے ، اور میں نہیں لکھتا تھا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/82/
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
-- -- - - - - -
(1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ سورة الزمر 39 آیت: 23 (قرآن 39:23)
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)
أَوَ حَدِيثًا أَحْسَنَ مِنْ حَدِيثِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟
وَأَخْبَرَنَا النَّاقِدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءَ سُلَيْمِ بْنِ أَسْوَدَ , قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مِرْدَاسٍ، فَرَأَيْنَا صَحِيفَةً فِيهَا قَصَصٌ وَقُرْآنٌ مَعَ رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ , قَالَ: فَوَاعَدْنَا الْمَسْجِدَ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مِرْدَاسٍ، اشْتَرِي صُحُفًا بِدِرْهَمٍ , إِنَّا لَقُعُودٌ فِي الْمَسْجِدِ نَنْتَظِرُ صَاحِبَنَا , إِذَا رَجُلٌ فَقَالَ: أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ يَدْعُوكُمْ , قَالَ: فَتَقَوَّضْتُ الْحَلْقَةَ , فَانْتَهَيْنَا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , فَإِذَا الصَّحِيفَةُ فِي يَدِهِ ,
فَقَالَ: «إِنَّ أَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْي مُحَمَّدٍ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَإِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ , وَإِنَّ شَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَإِنَّكُمْ تُحْدِثُونَ وَيُحْدَثُ لَكُمْ , فَإِذَا رَأَيْتُمْ مُحْدَثَةً فَعَلَيْكُمْ بِالْهُدَى الْأَوَّلِ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ أَهْلَ الْكِتَابَيْنِ قَبْلَكُمْ , مِثْلُ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ وَأَشْبَاهُهَا تَوَارَثُوهَا قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ , حَتَّى جَعَلُوا كِتَابَ اللَّهِ خَلْفَ ظُهُوَرِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ , فَأَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا عَلِمَ مَكَانَ صَحِيفَةٍ إِلَّا أَتَانِي , فَوَاللَّهِ لَوْ عَلِمْتُهَا بِدَيْرِ هِنْدَ لَانْتَقَلْتُ إِلَيْهَا» ( حدیث ، تقييد العلم للخطيب البغدادي ، ص 55)
کیا اللہ کی حدیث سے کوئی حدیث بہتر ہے؟
کیا اللہ کی حدیث سے کوئی حدیث بہتر ہے؟ تو ہم نے عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ اختتام پذیر کیا ، لہذا اگرصحیفہ ان کے ہاتھ میں ہے تو ، انہوں نے کہا: سب سے بہتر محمد ﷺ کی ہدایت ہے ، اور اگر بہترین حدیث کتاب اللہ ہے، اور اگر بری چیزیں ان کے ذریعہ بیان ہوئیں تو ، اور جب آپ بولتے ہو اور یہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے ، لہذا اگر آپ نے کوئی حدیث دیکھی تو پھر آپ کو پہلی رہنمائی حاصل ہوگی۔ اس طرح کا ایک صحیفہ اور اس جیسے صدیوں کے بعد صدی کے بعد، پھر انھوں نے کتاب اللہ کو پیچھے رکھ دیا گویا وہ نہیں جانتے- تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں ، ایک ایسے شخص کو ، جو صحیفہ کی جگہ جانتا ہے ، لیکن وہ میرے پاس آتا ہے ، الله کی قسم ، اگر میں اسے ہند میں بھی پاتا تو میں اس کے پاس چلی کر ختم کرتا ( حدیث ، تقييد العلم للخطيب البغدادي ، ص 55) ۔(برقی ترجمہ )
(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
(5) اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿٨٧﴾
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے (النساء 4:87)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾
’’ (بروز قیامت )رسول (حق تعالیٰ سے شکایت کے طور پر) کہیں گے کہ اے میرے پروردگار !میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کررکھا تھا۔‘‘ (قرآن 25:30)
اس آیت میں لفظ ’’مہجورا‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ’’نظر انداز ‘‘ کیا گیا۔ ’’مہجورا‘‘ کا لفظ ’ہجر‘ سے مشتق ہے۔ ہجر کے معنیٰ ہیں ترک کرنا‘ چھوڑنا ‘ قطع تعلق کرنا ‘ رخ پھیر لینا وغیرہ۔
لفظ ’’مہجورا‘‘ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں ’‘ہاجرات‘‘ بُری یا فحش باتوں کو کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جنہیں ترک کردیا جانا چاہئے۔
’مہجورا‘‘ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پیر سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔
قرآن مجید کو ’ ’مہجورا‘‘ بنادینے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے قرآن مجید کو اپنے خود ساختہ تصورات ،روایات اور خواہشات کی رسی سے اس طرح جکڑ دیا جائے کہ اس کے اصل معنیٰ و مفہوم اور پیام قاری کی خواہش کا تابع ہوجائے-
گویا آیات کا وہ مطلب اخذ کیا جائے جو بیان کرنے والے کی مراد ہو ،اگرچہ صاف اور واضح طور پر قرآنی آیات کا استدلال کچھ اور ہی کیوں نہ ہو۔
اسی سے ہجرت یعنی کسی چیز یا مقام کو چھوڑ کر دوسری چیز یا دوسرا مقام اختیار کرنا۔ مذکورہ بالا آیت میں ترک قرآن کی جو شکایت نبی کریم کی زبانی سامنے آئی اگرچہ اس سے مراد کفار ہیں کہ قرآن کا انکار کرنے والی قوم تو وہی ہے لیکن بعض روایات کی بناء پر مفسرین و علماء نے ایسے مسلمانوں کو بھی اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی ہے جو قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن نہ اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ،نہ اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس پرتفکر نہ عمل کرتے ہیں۔
حضرت عمر (رضی الله) کا فرمان یاد کریں کہ:
إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا»
انہوں (عمر) نے کہ میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دییا، اللہ کی قسم میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ (لباس) نہیں پہناوں گا" ( تقييد العلم ، جلد:1 صفحه : 49)
اب قرآن کو احادیث کی کتب کے لباس میں ملبوس کر دیا گیا ہے، مہجور کیڑے دیا ، قرآن کو احادیث اور علماء کی تاویلات کی عینک سے پڑھا جاتا ہے- قرآن کو احادیث کی کتب سے باندھ دیا گیا ہے، وہی کام جو اہل کتاب نے کیا اور جس کی نشاندہی رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین ، حضرت عمر (رضی الله) اور خلفاء راشدین و عبدللہ بن مسعود جیسے صحابہ اکرام نے کی تھی-
اس (قرآن) کا نہ پڑھنا بھی چھوڑ دینا ہے ،اس کا نہ سمجھنا بھی چھوڑ دینا ہے اور اس پر عمل نہ کرنا بھی اسے چھوڑ دینا ہے-
حضرت انسؓ سے مروی ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے معلق کردیا،اس کی تلاوت کی پابندی نہیں کی ،اس کے احکام پر غور نہیں کیا تو بروز قیامت قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرمادیجئے۔‘‘
ثعلبی کی اس روایت میں قرآن کی شکایت ’’ان عبدک ھذا اتخذنی مھجوراً ‘‘کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے اور یہاں بھی وہی لفظ ’’مہجورا‘‘ استعمال ہوا ہے۔
قرآن مجید کو مہجور بناکر رکھ دینے کا یہ مفہوم لیا جائے تو شاید اسی بات کو شاعر نے اس انداز میں کہا ہے :
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
قرآن کا ایک حق اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اس کی تعلیم کو عام کرنا بھی ہے لیکن اس کا اطلاق تو اس وقت ہوگا جب ہم مذکورہ ناقدری کو ترک کرتے ہوئے اس کو سمجھ کراس پر عمل پیرا ہوں۔
ان حقوق کی ادائی ہی اصل قدر دانی ہے ۔ یہی قدر دانی ہے جس سے قرآن دنیا میں ہمارے لئے رہنما اور آخرت میں نور و ذریعۂ شفاعت بن سکتا ہے۔
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …"(ترمذی ؛ 2906)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة 460)
عبد اللہ بن مسعود نے کہا: اس صحییفہ میں فتنہ، گمراہی اوربدعت ہے ( فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ ) تم سے قبل اہل کتاب ہلاک (برباد، گمراہ) ہوئے کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ چھوڑ کر دوسری کتب کی اتباع کی ۔ یا اللہ ، میں شرمندہ ہوں ان کو کچھ نہیں جانتا لیکن مجھے دکھاؤ اگر وہ مجھے جانتا ہے، اگر ہند کے مندر میں بھی صحیفہ ہو تو میں جا کر لاتا پھر اس نے پانی کا منگوایا اور تو اس نے وہ صحیفہ دھودیا- [10](تقييد العلم، ص 55)
باب رسول اللہ ، الله تعالی نے قرآن کے علاوہ دوسری کتابوں سے بھی منع کیا | 29 |
32 | |
33 | |
35 | |
36 | |
36 | |
38 | |
39 | |
41 | |
42 | |
43 | |
45 | |
53 | |
56 | |
65 | |
68 | |
72 | |
74 | |
82 | |
84 | |
86 | |
87 | |
87 | |
88 | |
91 | |
91 | |
93 | |
94 | |
98 | |
98 | |
99 | |
99 | |
103 | |
110 | |
114 | |
117 | |
134 | |
136 | |
139 | |
142 | |
بدگمانی کے ذریعہ کتاب کا قرض لیتے ہیں اور کسی | 146 |
باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کے بارے میں جو بیان ہوا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے ، اللہ پاک اس کی رحمت کرے ، کہ اس نے اس شخص کو خطبہ کی مدد لینے کا حکم دیا #65
https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vQxIpLnYFvLEHMZUNtg4apledurU2ZeR7YOnnY0cnllB8dfDrvDpRO3Cg5MqRUHEBX_RWlrFaWNhhyi/pub
Embed Code
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vQxIpLnYFvLEHMZUNtg4apledurU2ZeR7YOnnY0cnllB8dfDrvDpRO3Cg5MqRUHEBX_RWlrFaWNhhyi/pub?embedded=true"width="100%"></iframe></div>>
احادیث کتب کی شرعی حیثیت
قران و سنت و احادیث کی روشنی میں
"دین و دنیا" گروپ میں مکالمہ
17-20اکتوبر 2020
https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-writing.html
~~~~~~~~~~~~
کتابت احادیث پر احادیث
لبدعة الكبيرة Big Bid'ah
اسلام میں صرف ایک کتاب - قرآن کیوں ؟
Why Only One Scripture in Islam- The Quran ?
Brief : https://bit.ly/3idhm8B
[4] https://translate.google.com/translate?hl=en&sl=ar&tl=ur&u=http%3A%2F%2Flib.efatwa.ir%2F43553%2F1%2F151 اردو ترجمہ